کتنے آزار مقدر سے لگے رہتے ہیں
کتنے آزار مقدر سے لگے رہتے ہیں
تیرے بیمار تو بستر سے لگے رہتے ہیں
کبھی تجھ بالا نشیں کو بھی خبر پہنچے گی
کتنے سر ہیں جو ترے در سے لگے رہتے ہیں
شام ہوتی ہے تو کام اور بھی بڑھ جاتا ہے
ان گنت یادوں کے دفتر سے لگے رہتے ہیں
تیری فرقت میں کسے جادہ و منزل کا دماغ
غم کے مارے کسی پتھر سے لگے رہتے ہیں
ہم بھلا دیں گے زمانے کا چلن بھی لیکن
شیشۂ دل پہ جو پتھر سے لگے رہتے ہیں
آج بھی کوچۂ جاناں کی وہی رونق ہے
اب بھی کچھ لوگ برابر سے لگے رہتے ہیں