کتاب عشق کا اک باب لکھ دیا میں نے

کتاب عشق کا اک باب لکھ دیا میں نے
زمیں سراب فلک خواب لکھ دیا میں نے


ہماری نظروں سے جام سفال جب گزرا
پس دعا اسے نایاب لکھ دیا میں نے


سکوت آب کو اس نے سکوت آب لکھا
سکوت آب کو گرداب لکھ دیا میں نے


وہ کوئی جبر تھا یا جبر سے فرار مرا
رخ مہیب کو مہتاب لکھ دیا میں نے


کہ روشنی کی نہ تھی تاب چشم تاباں کو
سیاہیوں کو تب و تاب لکھ دیا میں نے


وہ بے خودی کا تھا عالم کہ وجد کی صورت
جو آب سادہ مئے ناب لکھ دیا میں نے


تپیدہ شام و سحر تھے تپیدہ جسم و جگر
تپیدہ جان پہ جب آب لکھ دیا میں نے


تمہاری شعلہ بیانی کا ذکر تھا ہر سو
تمہارے شعلے پہ غرقاب لکھ دیا میں نے


سلام بند کیا اس نے پھر کلام بھی بند
سو اس کو آخری آداب لکھ دیا میں نے