کسی پتھر کو چاہا ہے یہ دل کیسا دوانا ہے

کسی پتھر کو چاہا ہے یہ دل کیسا دوانا ہے
محبت ہے اسے اس سے جسے چاہے زمانہ ہے


کروں آنکھیں جو اپنی بند دکھ چہرہ وہ جاتا ہے
نہ چھوٹے گا کبھی مر کے بھی یہ رشتہ پرانا ہے


میرے مرنے کے ہیں جھگڑے تو مجھ کو مر ہی جانے دو
میری ہی غلطی ہے ساری یہی اس کا بہانہ ہے


دو موتی دیکھے ہیں میں نے بچھڑتے اس کی آنکھوں سے
ستارے جو جدا ہیں چاند سے ان کو چرانا ہے


بنا بولے وہ مجھ سے ہر لڑائی جیت جاتا ہے
نہ ہے تلوار نہ خنجر مگر جاں کو بچانا ہے


وہ میری قبر پہ آیا مگر کس حق سے آیا ہے
چمن برباد کر کے اب چراغوں کو بجھانا ہے


کنواں تھا پاس قاصدؔ پھر بھی میں پیاسا ہی لوٹا ہوں
اسے میں پی نہیں سکتا مگر خود کو ڈبانا ہے