حسیب الحسن کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    کسی پری کے خیالوں میں رقص کرتے رہے

    کسی پری کے خیالوں میں رقص کرتے رہے ہماری آنکھ سے آنسو نکل کے اڑتے رہے ہم ایسے پتے انا زاد بھی بلا کے تھے بہار رت میں درختوں سے لڑ کے جھڑتے رہے کسی کے لفظ گرے آبشار کے مانند ہمارے دل میں مسلسل شگاف پڑتے رہے کسی کو مانگنے آئی تھی منتوں سے کوئی کئی فقیر مزاروں پہ سر پٹختے ...

    مزید پڑھیے

    جو تری شکل کو مہتاب نہیں کہہ سکتے

    جو تری شکل کو مہتاب نہیں کہہ سکتے وہ مری آنکھ کو تالاب نہیں کہہ سکتے سچ میں کمزور ہے بینائی ہماری لیکن ریت کے ذرے کو سیماب نہیں کہہ سکتے ہم ہیں اوصاف پہ معیار پرکھنے والے اس لئے کوے کو سرخاب نہیں کہہ سکتے کم سے کم آپ تو رکھ لیجے بھرم یاری کا وہ تو دشمن ہیں نا آداب نہیں کہہ ...

    مزید پڑھیے

    سبھی مے کش توازن کھو رہے ہیں

    سبھی مے کش توازن کھو رہے ہیں خدا سے بے تکلف ہو رہے ہیں کسی کی آنکھ بنجر ہو گئی ہے کسی کے اشک برتن دھو رہے ہیں کہیں پر سوگ واجب ہو رہا ہے کسی کے فرض پورے ہو رہے ہیں ہمیں دھوکہ ملا دھوکہ ہی دیں گے جو کاٹا ہے وہ آگے بو رہے ہیں بہت پرہیز برتا جا رہا ہے مرے زخموں کو ناخن رو رہے ہیں

    مزید پڑھیے

    سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں

    سولی پہ جان اٹکی ہے مرتا مریض ہوں زخموں سے لطف لیتا انوکھا مریض ہوں باتیں محبتوں کی مرے سامنے نہ کر تو جانتا بھی ہے کہ میں دل کا مریض ہوں پاگل کیا ہے عشق نے آدھا جو رہ گیا اب آدھے سر کے درد کا پورا مریض ہوں پھر میرا ٹھیک ہونے کو دل ہی نہیں کیا اس نے مجھے کہا تھا میں اچھا مریض ...

    مزید پڑھیے

    ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں

    ہم بات ترے منہ پہ کھری کرنے لگے ہیں جا تجھ کو تخیل سے بری کرنے لگے ہیں ہاں راس نہیں ہم کو محبت کا خزانہ تھک ہار کے ہم سوداگری کرنے لگے ہیں مٹی سے بنایا تھا جو ساحل پہ گھروندا کچھ بچے اسے بارہ دری کرنے لگے ہیں اس واسطے لہجے کو بدل ڈالا ہے ہم نے خوشاب کو ہم دیکھ مری کرنے لگے ...

    مزید پڑھیے

تمام