کسی کی یاد پھر لہرا گئی تو
کسی کی یاد پھر لہرا گئی تو
بس اک پل میں قیامت آ گئی تو
چرائے پھرتا ہے تو آنکھ مجھ سے
نظر سے گر نظر ٹکرا گئی تو
نظر سے دیکھتے ہو چاہتوں کی
میرے چہرے پہ سرخی چھا گئی تو
ابھی تو کانپتا ہے جسم ڈر سے
ہماری روح بھی تھرا گئی تو
بزرگوں کی ہدایت ساتھ رکھیے
کبھی جو زندگی بل کھا گئی تو
فسانہ زندگی کا کیا سنو گے
مری آنکھوں میں بدلی چھا گئی تو
ابھی دم لینے کو ٹھہروں میں کیسے
سفر میں پھر تھکاوٹ آ گئی تو