بات کرنی ہے تو آ اب فکر و فن کی بات کر

بات کرنی ہے تو آ اب فکر و فن کی بات کر
ہم نوا اے ہم نفس ہم سے سخن کی بات کر


باغ کی بلبل کی غنچوں کی چمن کی بات کر
اس زمیں کی بات کر تو اس گگن کی بات کر


جسم پر نشتر کے ہیں گر زخم تو بھر جائیں گے
روح تک زخمی ہو جس سے اس چبھن کی بات کر


صنف نازک کو اگر دینی ہے عزت دل سے دے
در گزر کر دے خطائیں حسن ظن کی بات کر


اپنے دامن میں سمیٹے اشک آہیں سسکیاں
بن بیاہی لڑکیوں کی اس گھٹن کی بات کر


ہو درندوں کی نظر جس پر بری صبح و مسا
پھول سی بچی کے کھلتے بانکپن کی بات کر


ہیں وہی حالات تو کیسے کہیں کیوں کر کہیں
تتلیوں کی فصل گل لالہ بدن کی بات کر


مفلسی نے رکھ دیا ہے چیتھڑوں میں بانٹ کر
اب ردا کی بات کرنا پیرہن کی بات کر


آدمی کو آدمی سے اس قدر نفرت ہے کیوں
بغض کینہ دشمنی غیبت جلن کی بات کر


ٹوٹ کر چاہے مجھے اور جان تک قرباں کرے
میرے اس دلبر کی اس بانکے سجن کی بات کر


جب ضرورت ہو جنوں کی بات کر شہنازؔ سے
زندگی کی بات کر دار و رسن کی بات کر