کسی کی مہربانی ہو گئی ہے

کسی کی مہربانی ہو گئی ہے
عیاں دل کی کہانی ہو گئی ہے


ہرے موسم کی پہلی خواہشیں اف
خوشی غم کی دوانی ہو گئی ہے


سبھی افراد گھر کے سو گئے ہیں
بہت لمبی کہانی ہو گئی ہے


روایت کا ہے اب بھی سحر قائم
ہر اک جدت پرانی ہو گئی ہے


پس چہرہ ملا اک اور چہرہ
عقیدت پانی پانی ہو گئی ہے