غرور کا انجام

منظوم کہانی
حامد تھا مدرسے کا اک ہونہار بچہ
جویا تھا علم کا وہ تھا کامگار بچہ


عزت بڑوں کی کرتا چھوٹوں سے پیار کرتا
سب کو سلام کرتا سب سے ادب سے ملتا


پیکر خلوص کا تھا یوں با تمیز تھا وہ
اپنے ہوں یا پرائے سب کا عزیز تھا وہ


اک روز اس کے دل میں شیطان آ سمایا
پھر کیا تھا خود نمائی نے سر بہت اٹھایا
سوچا یوں ہی نہیں یہ لوگوں پہ دھاک میری
شاید یہاں سبھوں سے اونچی ہے ناک میری


سب چاہتے ہیں مجھ کو میں سب کا ہوں دلارا
شاید نہیں ہے روشن مجھ سا کسی کا تارہ


یہ سوچتے ہیں ایسا مغرور ہو گیا وہ
اخلاص و نیک سیرت سے دور ہو گیا وہ


ملنے لگی شرارت ہی میں اسے تو لذت
وہ مانتا برا جب کرتا کوئی نصیحت


تنگ آ کے رفتہ رفتہ لوگوں نے ساتھ چھوڑا
یاروں نے منہ کو موڑا اپنوں نے رشتہ توڑا


اوروں سے دور ہو کر اپنے میں کھو گیا وہ
بستی میں مدرسے میں تنہا سا ہو گیا وہ


ساتھ اس کے مدرسے اب ساتھی کوئی نہ جاتا
اب ساتھ وہ کسی کے ہرگز نہ کھیل پاتا


اک روز راستے میں دیکھا نہ اس نے پتھر
زخمی ہوا وہ کافی کھائی جو اس نے ٹھوکر


خون اتنا بہہ گیا کہ بے ہوش ہو گیا وہ
آیا جو ہوش اپنی حالت پہ رو پڑا وہ


کوئی نہ تھا وہاں جو اس کی مدد کو آتا
لنگڑاتا اور روتا اس شام گھر کو پہنچا


ایک ہفتہ بعد اس کا سالانہ امتحاں تھا
لیکن علاج ہی میں ہفتہ وہ سارا گزرا


دن امتحاں کے بارش نے راستے میں گھیرا
پیڑوں کے نیچے دبکا چھتری نہ لا سکا تھا


ویسے تو ساتھیوں کو اس نے بہت پکارا
لیکن کسی کو اس پر مطلق ترس نہ آیا


القصہ امتحاں میں ناکام ہو گیا وہ
تھا نیک نام کل تک بدنام ہو گیا وہ


بچو فقط کہانی ہرگز اسے نہ جانو
یہ بات قیمتی ہے دل سے تم اس کو مانو


بھولے سے بھی نہ ہرگز دل میں غرور آئے
کردار بھی ہو ایسا سب کو سرور آئے


کرتا ہے خاک جسم و جاں کو غرور ایسے
سوکھے ہوئے شجر کو کھا جائے آگ جیسے