کسے بتائیں کہ زاد سفر گیا کب کا
کسے بتائیں کہ زاد سفر گیا کب کا
رہا ہی کیا ہے غم معتبر گیا کب کا
مجھے بھی دیکھ کہ میں ایک نقش حیرت ہوں
دکھا کے آئنہ آئینہ گر گیا کب کا
تلاش صحرا بہ صحرا جسے کیا میں نے
وہ میری روح کے اندر اتر گیا کب کا
دعا رہین اثر ہے یہ بات سچ ہے مگر
مری دعا سے یقیناً اثر گیا کب کا
نہ سنگ میل نہ جادہ نہ کوئی منزل شوق
اکیلا میں ہوں مرا ہم سفر گیا کب کا
کوئی امید نہ خواہش نہ آرزو باقی
کہ میرے جسم کا انسان مر گیا کب کا
حبابؔ ایک تناور درخت تھا میں بھی
پہ ٹوٹ ٹوٹ کے آخر بکھر گیا کب کا