کی جائے چھپ کے ایسی یہاں غائبانہ بات
کی جائے چھپ کے ایسی یہاں غائبانہ بات
سرحد کے پار پہنچے نہ یہ کافرانہ بات
محفل یہاں سجی ہے مگر تو نہیں یہاں
تیری بھی کاش ہوتی کوئی معجزانہ بات
اس کو کوئی شغف ہی کہاں شاعری سے ہے
محفل میں کیسے کرتے رہے شاعرانہ بات
دیکھو تو ایک عام سا کم فہم سا وہ ہے
دہرا رہا ہے آج بھی اس کی زمانہ بات
حاصل تو کچھ نہ ہوگا تمہیں مار پیٹ سے
کرتے ہیں سارے مل کے کوئی دوستانہ بات
اکثر میں تجھ سے بات یہی کہتا ہوں سحرؔ
غصے کو چھوڑ کر کوئی اب عاجزانہ بات