خواب زخموں کی طرح میر کی غزلوں جیسا
خواب زخموں کی طرح میر کی غزلوں جیسا
مجھ کو اک شخص ملا ہے مری سوچوں جیسا
جس کی باتوں میں ہو عنبر کی عرق افشانی
جس کا انداز ہمیشہ ہو گلابوں جیسا
یوں لگا جیسے اسے جانتی ہوں صدیوں سے
میں نے اک شخص کو پایا مرے خوابوں جیسا
بات کرتا تھا مگر بات بدل جاتا تھا
اس کا لہجہ تھا کئی الجھے سوالوں جیسا
صبح کی کرنوں کے جیسی ہے محبت اس کی
اس کا انداز محبت ہے اجالوں جیسا
جانے والے کو خبر کیا کہ بچھڑ کر اس سے
لمحہ صدیوں میں گزرتا ہے عذابوں جیسا
زندگی اپنی جو کہتا تھا ہمیشہ مجھ کو
اب مرا ذکر وہ کرتا ہے حوالوں جیسا