خواب

جانے کتنے سپنے دیکھے
جیون کے اس روپ نگر میں
ورشا رت میں جیسے مسافر
پریت ڈگر پر پریم سفر میں
سپنے جن میں کومل پریاں
پر پھیلائے ڈول رہی ہیں
آشاؤں کے گیت کی لے پر
امرت رس کو گھول رہی ہیں
میں نے سوچا میت سبھی ہیں
یہ سارا سنسار ہے اپنا
سارے جگ کی ریت یہی ہے
کڑوی نیندیں میٹھا سپنا
دھرتی کی اس پھلواری میں
چاند ستاروں کے درپن میں
میں نے دیکھی اپنی چھایا
جگ میں سب اپنے ہیں تو پھر
کوئی کسی کا بیری کیوں ہو
ہونٹوں پر مسکان تو بکھرے
من میں الجھن ٹھیری کیوں ہو