بچپن
پیارا پیارا بھولا بچپن
کھیلا جو ماں باپ کے آنگن
پیاری بھولی باتیں اس کی
سپنوں والی راتیں اس کی
پانی کو کہتا ہے مانی
دوڑ کے لائے اس کی نانی
روٹی مانگے آٹی کہہ کر
دوستی توڑے کٹی کہہ کر
ضد پر اپنی جب آ جائے
اپنی سی کر کے وہ دکھائے
پیارے پیارے اس کے کھلونے
کھیلے گڈو اور سلونے
سب پہ حکومت اس کی رہتی
کوئی بات نہ اس کی ٹلتی
گرتا پڑتا اور سنبھلتا
روتا دھوتا اور مچلتا