خواب ہیں سارے نئے آنکھ پرانی میری

خواب ہیں سارے نئے آنکھ پرانی میری
ہے تضادات سے بھرپور کہانی میری


تجھ سے میں کہتا نہ تھا اندھی ہوا سے بچنا
سن کے بھی ایک یہی بات نہ مانی میری


کھا گیا کرب زمانہ مرے لہجے کا وقار
عام تھی ورنہ یہاں شعلہ بیانی میری


افق دل پہ یہ بجھتا ہوا رنگوں کا ہجوم
مانگتا رہتا مجھی سے ہے نشانی میری


دن کا ہر زخم میں راتوں کو گنا کرتا ہوں
دن ہے بے کیف مرا رات سہانی میری


میٹھے چشموں سے جو گزرو گے یقین ہے مجھ کو
یاد آئے گی بہت تشنہ دہانی میری


پھیلنا ہے مری فطرت میں کہ ہوں موجۂ گل
رائیگاں جائے گی کب خوئے روانی میری