خوش نمائی سے ماورا تو ہے

خوش نمائی سے ماورا تو ہے
ہے اگر کوئی حق نما تو ہے


تو ہی محور ہے میری گردش کا
اور مرکز بھی با خدا تو ہے


میرا مقصد نہیں ہے دید فقط
میرا ہر ایک مدعا تو ہے


جان لیوا ہے زہر وحشت کا
جس کا تریاک موت یا تو ہے


فہم و ادراک سے جو بالا ہے
وہ کہانی وہ ماجرا تو ہے


درمیاں بھی ہے انعکاس ترا
ابتدا اور انتہا تو ہے


مجھ کو طغیانیوں کا خوف نہیں
میری کشتی کا ناخدا تو ہے


تو ہی ساقی ہے حوض کوثر کا
تو محمد ہے مصطفیٰ تو ہے