خورشید کی بیٹی کہ جو دھوپوں میں پلی ہے

خورشید کی بیٹی کہ جو دھوپوں میں پلی ہے
تہذیب کی دیوار کے سائے میں کھڑی ہے


دھندلا گئے رنجش میں اس آواز کے شیشے
برسوں جو سماعت سے ہم آغوش رہی ہے


اب تک ہے وہی سلسلۂ خانہ خرابی
اے عشق ستم پیشہ تری عمر بڑی ہے


ہم آئیں تو غیروں کی طرح بزم میں بیٹھیں
اے صاحب خانہ تری یہ شرط کڑی ہے


ڈسوایا ہے پھنکارتے سانپوں سے بدن کو
تب جا کے یہ اک دولت فن ہاتھ لگی ہے


نقاد کے ہاتھوں میں ہیں تنقید کے تیشے
سہمی ہوئی تخلیق کتابوں میں پڑی ہے