خدا سے آشنائی چاہتا ہوں

خدا سے آشنائی چاہتا ہوں
مگر کچھ رہنمائی چاہتا ہوں


کوئی انداز ہو لیکن اچھوتا
وہ ناز دل ربائی چاہتا ہوں


بہت نادم ہوں اپنی حسرتوں پر
ارے توبہ خدائی چاہتا ہوں


اجازت ہو تو دل کا حال کہہ لوں
کہ میں بھی لب کشائی چاہتا ہوں


متاع درد دل کو کم ملی ہے
توجہ انتہائی چاہتا ہوں


سمجھ تو لوں حیات عشق کیا ہے
ذرا سی کج ادائی چاہتا ہوں


چمن آرائیاں ان کو مبارک
فروغ خود نمائی چاہتا ہوں


تری محفل تک آیا تو ہوں لیکن
ترے دل تک رسائی چاہتا ہوں


نشیمن میں بھی دل اکتا رہا تھا
قفس سے بھی رہائی چاہتا ہوں


تعلی ہے جو شرح ضبط غم میں
سزائے خود ستائی چاہتا ہوں


سنا ہے حسن ابھی ہے نا مکمل
غزل کی رہنمائی چاہتا ہوں


بجز اس کے کوئی حسرت نہیں ہے
میں اس در کی گدائی چاہتا ہوں


چلوں اس در پہ ندرتؔ چل کے دیکھوں
جو قسمت آزمائی چاہتا ہوں