خود کو زندہ رکھنے کا سنگھرش ہے یہ

خود کو زندہ رکھنے کا سنگھرش ہے یہ
جیون کا ہر پل جیسے اک ورش ہے یہ


سوچ کا پنچھی جب بھی اڑانیں بھرتا ہے
وقت پٹخ کر کہہ دیتا ہے فرش ہے یہ


میری غزلیں کیا ہیں میرا آئینہ
مصرع مصرع جیون کا آدرش ہے یہ


کل شب چلتے چلتے کہاں تک جا پہنچا
چیخ رہا تھا مجھ پر کوئی عرش ہے یہ


دیکھ کے آئینہ لگتا ہے یہ افروزؔ
میں ہوں یا پھر زخموں کا اسپرش ہے یہ