چشم انا سے بادۂ غم پی رہا تھا وہ

چشم انا سے بادۂ غم پی رہا تھا وہ
کل رات اپنے آپ میں ڈوبا ہوا تھا وہ


مجھ کو مرے وجود سے باہر جو لے گیا
میرے ہی روپ میں کوئی بہروپیا تھا وہ


شور اس کو زندگی کا سنائی نہیں دیا
شاید کسی کی چاہ میں ڈوبا ہوا تھا وہ


محشر میں مجھ کو پوچھ رہا تھا ہر ایک سے
معلوم بعد میں ہوا میرا خدا تھا وہ


مجھ سا ہی شخص کوئی مرے آئنے میں تھا
مجھ کو ہی دیکھ دیکھ کے گھبرا رہا تھا وہ


افروزؔ آیا سامنے یوں اس کے دل کا چور
تصویر میری دیکھ کے شرما رہا تھا وہ