کھوکھلا پہیا

’ہم تو خدا کے بنائے ہوئے پہیّے ہیں، کھوکھلے پہیے ۔۔۔وہ جس طرح چاہتا ہے گھماتا ہے اوراگر ہم گھومنے سے انکار کریں۔۔۔
انکار؟
انکار کیسے کرسکتے ہیں، ہمیں توگھومتے ہی رہنا ہے، کبھی مرضی سے اورکبھی مرضی کے بغیر۔‘
وہ ہرشام دھندے پر نکلنے سے پہلے یہی سوچاکرتا۔
اس نے لونی لگی کچی دیوارمیں ٹھکی کھونٹی سے پرانا جھولا اتارااور دھندے کے اوزار ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ ہتھوڑی، چھینی، سنڈاسی، چھوٹی سی کدال اورایک آنکڑا۔’’سب ٹھیک ہے۔‘‘
سب ٹھیک تھا مگراس نے ایک بار پھرجھولے میں جھانک کردیکھا۔ غروب ہوتے سورج کی مدھم روشنی میں اوزار دکھائی دیے۔ آنکڑا منہ اٹھائے اسے تک رہاتھا۔ اسے لگاکہ ابھی آنکڑا اُچھل کراس کی قمیص کے دامن میں پھنس جائے گا۔ پھر وہ اور اس کاننگا بدن۔۔۔!سوکھی کھال کے اندر پسلیاں پھڑپھڑانے لگیں۔ وہ سہم گیا اورجلدی سے جھولابند کردیا۔ اب وہ بوڑھا ہوگیا ہے، قبرمیں پیرلٹکائے بیٹھا ہے، اسی لیے آنکڑے سے ڈرجاتا ہے۔
وہ دھندے پرجارہا ہے۔ بغل میں جھولا اورہاتھ میں پتلی چھڑی ہے۔ اسے کدھر جانا ہے کیامعلوم؟ ابھی دوچار گائوں یوں ہی بھٹکے گا پھرآدھی رات ہوجائے گی، کام بن گیا توٹھیک ،ورنہ صبح ہوتے ہوتے گھرواپس۔
گھر؟
گھرتوبسنے سے پہلے ہی اجڑگیاتھا۔ توکیا ہوادرودیوار توسلامت ہیں۔‘
اسے دورکوئی چیزچمکتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب پہنچا تودیکھا کہ ایک چھوٹاسابلب چمک رہا ہے۔
’یہ تو پہیا ہے ،بلکہ گاڑی ہے۔‘
ایک بچے نے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے دوپہیوں میں ڈنڈا باندھ کرگاڑی بنارکھی تھی۔ دونوں پہیوں کے بیچ بیٹری کے دوسیل کھپچیوںمیں ستلی سے لپیٹ کر رکھ دیے تھے اوربجلی کے لمبے تارمیں چھوٹا بلب لگا کرڈنڈے میں لٹکادیاتھا۔
’واہ رے خداہم سچ مچ کھوکھلے پہیے ہیں ،توجس طرح چاہتا ہے ہمیں گھماتا ہے۔‘
اسے یادآیا بچپن میں بنجاروں والے کنویں پرایک پہیا ملاتھاجوبالکل کھوکھلا تھا۔ عام پہیوں سے الگ پائپ کابنایہ پہیا شاید کسی پرانی مشین کابڑاپرزہ ہو،مگریہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ وہ کھوکھلا کیوںتھا، کیا ہمیشہ سے کھوکھلا تھا؟ کھوکھلا تھا بھی یانہیں؟یاپھر۔۔۔!
اس نے دیکھا کہ بچہ بلب لگی گاڑی کوبہت آہستہ آہستہ ڈھکیل رہا ہے۔
’ارے اس میں تولوہے کے دوتاربھی بندھے ہیں۔‘
بچے نے ایک تارکھینچا ۔گاڑی کے دونوں پہیے ایک جانب مڑگئے۔دوسراتارکھینچا تو گاڑی رک گئی۔ یہ بریک تھا۔
’ہاتھ سے ڈھکیلنے پر اوروہ بھی اتنا آہستہ، پہیے کوبریک کی ضرورت؟‘
یہ بات اس کی سمجھ سے باہر تھی۔
’کیایہ سمجھنے کے لیے بچہ بننا پڑے گا؟‘
’مگرکیوں؟کیاوہ کبھی بچہ نہیںتھا؟‘
بچپن میں جب وہ زنگ آلود لوہے کے کھوکھلے پہیے کومکاکے ٹھٹھیرے سے ڈھکیلتے ہوئے بہت تیزدوڑتاہوا مدرسے سے گھرواپس آتا تواس کے پہیے کو نہ توکہیں بریک کی ضرورت پڑتی اورنہ ہی وہ آج کی طرح دھیمے چلتا۔ اگرکبھی وہ اس پرانے زنگ آلود کھوکھلے پہیے کوآہستہ چلانے کی کوشش کرتا بھی توپہیا دوچار چکرلے کرگرجاتا۔ پہیے کے سہارے وہ کتنی جلدی گھرواپس آجاتا تھا۔ جب تھوڑا بڑاہواتو اس کے بعد کی نسل نے سرکنڈے یا مکّا کے ٹھٹھیرے کے بجائے لوہے کے آنکڑے بنالیے اورسب پہیے دھیمے چلنے لگے۔ جب جوان ہوا توپہیوں میں آنکڑے اس طرح جڑدیے گئے کہ پہیے اپنی فطری رفتار کھوبیٹھے۔۔۔ اوراب جب کہ وہ بوڑھا ہے ، موڑنے اوربریک لگانے کے لیے تاربھی کس دیے گئے ہیں۔ اب اسے بچوں کے ان پہیوں سے نفرت ہونے لگی۔ پہیوں سے ہی کیوں، قصبے کی زمین سے اگتی ہوئی نئی نئی بلند عمارتوںسے بھی تواسے نفرت ہے۔ جب عمارتیں کم تھیں تو پہیے تیز چلتے تھے اورجب پہیے تیز چلتے تھے تواس کادھندا بھی اچھاچلتا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد ہے، ایک روز وہ پوکھرکے کنارے اداس بیٹھاتھا کہ شکورا تیلی کاجنازہ گزرا۔ وہ اسی طرح بیٹھارہا۔ جب جنازہ قبرستان کے احاطے میں داخل ہوگیا توایک عمررسیدہ تجربے کارشخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
’’کسی دھندے سے لگا ہے ؟‘‘
بولاکچھ نہیں بس نفی میں گردن ہلادی۔
’’چل اٹھ، یہ لے جھولا۔‘‘
وہ اٹھا، شکوراتیلی کی قبرکھول کرتختہ ہٹایااوراس میں آنکڑا ڈال دیا ۔چند ہی لمحوں میں بہت قیمتی اورملائم کپڑااس کے ہاتھوں میں لپٹا ہواتھا۔ پھرکیاتھا ،وہ کفن کھسوٹنے میں ماہر ہوگیا۔ رات ہی رات میں دس دس کوس کے مردوں کے کفن کھسوٹ لاتا۔
’’تیرانام کیا ہے؟‘‘ اس نے گاڑی والے بچے سے پوچھا۔
بچے نے جواب دیا۔’’سلیم‘‘
’’توحاجی وحیدکاناتی ہے؟‘‘
بچہ کچھ کہے بغیر ،آہستہ آہستہ گاڑی ڈھکیلتا آگے بڑھ گیا۔
’حاجی وحید!‘ ہاں وہی وحیدپہلوان ،جن کی اب دومنزلہ عمارت ہے، یہیں ان کاکچامکاتھا۔ اسارے میں اپنے چیلوں کو لیے بیٹھے رہتے۔ ہروقت کچھ نہ کچھ کھانا پینا چلتا رہتا۔ کبھی بادام، کبھی دیسی گھی میں بناانڈے کی زردی کاحلوا۔ دیسی گھی تو وہ پانی کی طرح اوک سے پی جاتے۔ پھرانھوںنے اسارے کی جگہ بیٹھک بنوالی اوردیسی گھی پینا بند کردیا ۔جب پچھلا کوٹھاتڑواکر دوکمرے بنوائے توزردی کاحلوابھی بند ہوگیا۔ اورجب ان کی لکڑی کی ٹال آرامشین کاکارخانہ بنی تو چیلے چپاٹے غائب۔ اب ان کے بچے شہرمیں پڑھتے تھے اوروہ بیٹھک میں پڑے کھانستے رہتے تھے اورایک دن ان کاانتقال ہوگیا تو اس نے کفن چرانے کے لیے ان کی قبرمیں آنکڑا ڈالا۔
’’آج تو بہت قیمتی کپڑاملے گا۔ اس دفعہ کپڑا رام سروپ بزاز کے ہاں نہیں بیچوںگا۔ بے ایمان بہت کم پیسے دیتا ہے۔ مگر رام سروپ بھی کیا کرے، اب قبرسے نکلتا ہی کتناباریک اورخراب کپڑا ہے۔ جس دن اخبارمیں یہ خبر چھپی کہ ہمارا قصبہ تحصیل ہوگیا ہے ،اس دن دل شاد پٹواری کی قبرسے کتنا مہین کفن نکلاتھا۔ رام سروپ نے تواٹھا کر پھینک دیا تھا ۔ مگر پھر مان ہی گیا۔ آخرتھا تواسی کی دکان سے خرایدا ہوا۔ لیکن حاجی وحید کے بیٹوںنے توبڑاقیمتی کفن پہنایا ہوگا۔‘‘
اس نے چھڑی میں آنکڑا کسا اورتختہ ہٹاکر قبرمیں ڈال دیا۔ دوتین جھٹکے مارے پھرآہستہ آہستہ کھینچا۔ دیکھا توکپڑا کیا تھا چیتھڑا تھا۔
’رام سروپ تو دوآنے کو بھی نہیں پوچھے گا۔‘
اس وقت اسے یادآیا کہ استاد نے بتایا تھا ۔ بہت دنوں کی بات ہے جب اس قصبے میں سب مکان کچے تھے اوربرسات میں ہرآدمی کاچھپر ٹپکتا تھا ۔اس وقت استاد کے دادا نے جس قبرسے کفن چرایا تھا، اس میں سونے چاندی کے تاروں سے بناایک دوشالہ نکلاتھا۔
بچہ گاڑی لے کر حاجی وحید کی دومنزلہ عمارت میں گھس گیا۔ کافی اندھیراہوچکا تھا۔’ابھی اسے کئی گائوں گھومنا پڑے گا، شاید کہیں موت ہوئی ہو۔‘ خیرات پور، نارائن پور اور گنگا گڑھ ہوتاہوا جب ویرپورکے قبرستان کے قریب پہنچا توقبرستان میں روشنی نظرآئی ۔سکون کی سانس لی اورقبرستان کے باہر پلیا پربیٹھ گیا ۔ لوگ مردے کو دفن کرکے واپس جارہے تھے ۔ اس نے چھپ کر واپس جاتے لوگوں کودیکھا۔ ان کے چہروں پر نہ غم کے آثارتھے اورنہ موت کاخوف۔
’یہ کون سی جگہ؟ یہ سچ مچ ویرپورکاقبرستان ہے یا وہ کسی اوردنیا میں آن بھٹکا ہے۔‘
چاروں طرف نظریں گھمائیں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
’’کوئی بھی جگہ ہومجھے کیا؟ ہے توقبرستان ہی ۔ اورقبرستان بھی نہ ہو تو کیاہوا، قبرتو ہے ، جس میں ابھی ابھی کچھ لوگ مردے کودفنا کرواپس گئے ہیں۔‘‘
’چنبیلی مہک رہی ہے، لگتا ہے امیروں کاقبرستان ہے، اورجولوگ دفنا کرگئے ہیں ان کے کپڑوںسے بھی عجیب عجیب خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔‘
اس نے جھولے کوٹٹولا، آنکڑا نکال کرچھڑی میں لگایا اورتازہ قبر کی تلاش میں چل دیا۔ قبرملی تواس پرببول کی ٹہنی کے بجائے گلاب کی شاخ اڑسی ہوئی تھی اور مٹی کیوڑے سے مہک رہی تھی۔ اس نے کدال نکالی اورقبر کے ایک کونے کو کھودنے لگا۔ وہ جتنا کھودتا خوشبو تیز ہوتی جاتی۔ اچانک ’’ٹن‘‘سے آواز ہوئی۔ وہ اچھل گیا۔ اسے لگا کہ کدال لوہے کے کھوکھلے پہیے سے جالگی ہے۔ کدال پھرماری ،آوازاورتیز ہوئی۔ وہ دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’اے خدا میں کہاں آن پہنچا ہوں؟ یہ لوگ کون تھے جومردے کودفن کرگئے ہیں اوریہ آواز۔۔۔یہ آواز کیسی ہے ، کیا مٹی پتھراگئی ہے یامیری عقل پرپتھر پڑگئے ہیں ۔‘‘
اس نے ہمت کی اورایک بار پھر کدال ماری ۔اب اس کی سمجھ میں آگیا کہ تختے کی جگہ پتھر کی پٹیا رکھی ہے۔
’آج تو برسوں بعد حسرت پوری ہوگی، کسی امیر کی قبر ہے، شاید سونے چاندی والا دوشالہ بھی ہو۔‘
اس نے ہاتھ سے پتھر کوکھسکا نا چاہا مگرپتھر بہت بھاری تھا۔’وہ یہی توچاہتا ہے کہ پتھر بہت بھاری ہو۔ ہلکا پھلکا پتھر رکھنے والے مردے کو دوشالہ کیااڑھائیںگے۔‘
اب اس نے جھولے سے چھینی ہتھوڑی نکال کرپتھر میں چھیدکرنا شروع کردیا۔ مٹی میں دبے پتھر کوکاٹنے کی بھنچی بھنچی آواز قبرستان کے سکوت کوتوڑرہی تھی۔ جب آواز تیز ہوتی ہے تووہ کانپ جاتا ہے۔
’’کون؟‘‘
’ارے یہ تومیرا وہم ہے۔ یہاں اندھیرے کے سواکون ہوسکتا ہے۔ بستی یہاںسے کوس بھردور ہے۔‘
پتھر بہت موٹا ہے ۔وہ پسینے میں شرابور ہوچکا ہے۔ قبرکی ساری مٹی کھود کرپتھر ہٹا دینا زیادہ آسان ہے۔
’مگرپھاوڑا۔۔۔؟‘
اس نے اپنے چاروں طرف دیکھا کہ شایدگورکن اپناپھاوڑا بھول گیا ہو۔ کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ایک سیاہ غار۔۔۔ آنکھوں کے سامنے گول گول دائرے تیرنے لگے اورسرچکرانے لگا۔ پھراس نے کدال اٹھائی اورپوری طاقت سے پتھر کے کونے پر دے ماری ۔پتھر چٹخ کرٹوٹ گیا۔ اس نے آنکڑے والی چھڑی آڑے ترچھے بڑے سے چھید کے اندرڈال دی۔ مگراس کے پائوں الٹے پڑرہے تھے۔ بیری کے سوکھے جھاڑنے اسے آدبوچا۔
’اف اتناخوف؟آخربیس سال سے یہی کام کررہا ہوں۔‘
اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔ دل کوتسلی دی۔
’یہ توخوشی سے کانپ رہے ہیں، خوف کیسا۔‘
وہ کپکپاتے ہاتھوںسے آنکڑے میں کفن پھنسانے کی کوشش کرنے لگا۔ آنکڑا باربار کسی چیز میں لگ کر پھسل جاتا ۔
’شاید دوشالہ بہت دبیز ہے۔‘
اس نے بڑی مہارت کے ساتھ زورلگاکر آنکڑے کے منہ کوکپڑے میں اٹکانے کی کوشش کی ۔محسوس ہوا کہ کوئی موٹی سی چیز آنکڑے میں پھنس گئی ہے۔ اس نے کھینچنا چاہا مگرآنکڑا نہیں کھنچا۔
’بہت موٹاکپڑا ہے۔‘
پھرزورسے جھٹکادیا۔ اب آنکڑا پتھر کے چھیدسے باہرآچکاتھا۔۔۔۔
آنکڑے کوچھوا‘
تواس کے ہاتھ میں کوئی لِجلِجی سی چیز آگئی۔ یہ مردے کے جسم کی نچی ہوئی کھال تھی۔ وہ چیخ پڑا اوربے تحاشا بھاگنے لگا۔ وہ اپنی سمت بھول چکا تھا ۔وہ کب سے بھاگ رہا ہے؟برسوں سے ۔۔۔صدیوںسے ۔۔۔؟یہ تویاد نہیں مگراب وہ جہاں آن پہنچا ہے ۔جگمگاتی روشنیوں والاکوئی بہت بڑاشہر ہے ۔اسے دورسے دھواں اگلتی چمنیاں نظرآرہی ہیں۔ چمنیاں لوہے کی ہیں ،مگر کھوکھلے پہیے والے زنگ آلود لوہے کی نہیں۔
اب وہ شہر کے باہر عیسائیوں کے قبرستان کے قریب کھڑا ہے اوربری طرح ہانپ رہا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں۔ اورجب آنکھیں کھولیں تودیکھا کہ شہر کی جانب سے گیس کی لالٹینوں کے ساتھ برات آرہی ہے۔
’برات؟ نہیں یہ توعیسائیوں کاجنازہ ہے۔‘
اسے اپنے استاد کی بات یادآئی۔
’’جب کوئی عیسائی مرتا ہے تواسے سونے کی زنجیر ،گھڑی اورقیمتی کپڑے پہناکر تابوت میں بند کیاجاتا ہے۔‘‘
’کیاسچ مچ آج بھی سونے کی زنجیر اورگھڑی پہناتے ہیں عیسائی لوگ؟‘
’ہاں کیوں نہیں۔‘
اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چمکتا ہوا ایک بڑاستارہ نظرآیا۔
’ارے یہی توہے اپنی قسمت کاستارہ ۔ کتنے دنوں بعد چمکا ہے۔‘
اطمینان کی سانس لی اورقبرستان کے ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
’ان لوگوں کے چہروں پر خوف کیوں ہے؟‘
’شاید موت کاخوف ہو۔‘
’مگرکسی کے چہرے پر رنج والم کانام ونشان بھی نہیں۔‘
’استاد نے بتایاتھا کہ عیسائی کسی کی موت پرروتے پیٹتے نہیں ہیں۔ بس کا لے کپڑے پہن لیتے ہیں۔‘
اس نے دیکھا کہ قبرمیں اتارتے وقت تابوت ایک طرف کوجھک گیا ہے۔
’شاید تابوت کے اندربہت بھاری بھرکم مردہ ہے جوقیمتی سامان کے بوجھ سے اِدھراُدھر لڑھک رہا ہے۔‘
اب تابوت مٹی سے ڈھکا جاچکا تھا اورسینے پر کراس کانشان بناتے لوگ قبرستان سے باہر نکل گئے تھے مگر دوچار لوگ اب بھی وہاں کھڑے تھے۔
’ارے یہ لوگ اس طرح چپکے چپکے کیاباتیں کررہے ہیں؟‘
اس نے کان لگاکر سننا چاہامگرباتیں اتنی آہستہ ہورہی تھیں کہ شاید بات کرنے والا بھی اپنی بات نہیں سن پارہاتھا ۔ سننے کی بہت کوشش کی مگر وہ صرف اتنا سن پایا
’’اب کوئی فکر کی بات نہیںسب یہی سمجھیں گے کہ۔۔۔‘‘
پھران میں سے ایک نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکال کرسامنے کھڑے شخص کودیے۔ دوسرے نے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی باقی لوگ ادھر ادھر چلے گئے۔ وہ جلدی سے قبرکے پاس پہنچ گیا اورکدال سے مٹی کھودنے لگا۔ کدال سے کھود کھود کر اس نے قبر کی ساری مٹی کوپھوکا کردیاتھا۔ کچھ ہی دیرمیں تابوت نظرآگیا۔ مٹی ہٹائی اورتابوت کوچھوکر دیکھا۔ اس پرپیتل کی پتیاں جڑی ہوئی تھیں۔
’’اُف تابوت بھی اتنا قیمتی!‘‘
اس کے منہ سے نکلا۔ اپنی آواز کی باز گشت اجنبی آوازوں میں تبدیل ہوکراسے سنائی دی تواس نے چونک کرچاروں طرف دیکھا اور جلدی سے تابوت کی ایک کیل اکھاڑ دی۔ پھرکیل کوآنکھوں کے قریب لاکر اس طرح دیکھنے لگا کہ کہیں یہ کیل سونے کی تونہیں ۔مگررات کی تاریکی میں اسے کچھ نظرنہ آیا۔
’اندر کتناخوبصورت مردہ ہوگا۔۔۔تندرست ،صحت مند، گھڑی اورسونے کی زنجیر پہنے اور دوشالہ۔۔۔نہیں بھی ہواتو سونے کی زنجیر توہوگی ہی۔۔۔جب وزیرخاں حج کر کے لوٹے تھے توانھوںنے ایک ہاتھ کے بجائے دونوں ہاتھوں میں گھڑیاں پہن رکھی تھیں اورپھرعیسائیوں کی توبات ہی کچھ اورہے ، چارچار گھڑیاں بھی پہنا سکتے ہیں مردے کو۔‘
وہ ہاتھوں میں چارچار گھڑیاں پہنے، گلے میں سونے کی موٹی زنجیر ڈالے اورسونے چاندی کے تاروں سے بنا، نگینے جڑا، بھاری دوشالہ اوڑھے بڑے بڑے شہروں کی چوڑی سڑکوں پر ٹہل رہا ہے۔
بڑے سے بڑا سنار بھی اس کی زنجیر اوردوشالہ خریدنے کوتیار نہیں ۔خریدے بھی کیسے؟ کس کے پاس ہے اتنا روپیہ؟ اتنا قیمتی سامان توکوئی راجا ہی خرید سکتا ہے۔ اسے لگا کہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔
’’پولیس!‘‘
’’نہیں۔‘‘
اس نے دیکھا کہ نہ اس کے کندھوں پردوشالہ ہے اورنہ گلے میں سونے کی زنجیر۔ وہ تابوت کے پاس تنہا بیٹھاتھا۔ سامنے زمین پر قبرکی مٹی کے بچے کھُچے ڈھیلے بکھرے پڑے تھے اورآسمان پر بڑا تارہ چمک رہا تھا۔ اس نے بہت احترام سے تابوت پرہاتھ پھیرا ۔پیتل کی پتر کے نقوش ابھرے محسوس ہوئے تواس کی اکھڑی ہوئی سانسیں قابومیں آنے لگیں اوروہ انگلیوں کوڈھیلا کرکے دھیرے دھیرے تابوت کوسہلانے لگا۔
’اب دیرکرنے سے کیافائدہ ۔۔۔کھل جاسم سم ۔‘
اس نے تابوت کے اوپر کاتختہ ہٹایا اورجلدی سے مردے کودونوں ہاتھوں سے پکڑکر اٹھانا چاہا مگرجب اس کے ہاتھ مردے کے بجاے تابوت کے نچلے تختے پر جالگے تو وہ لرزگیا۔ تابوت خالی تھا۔ بالکل خالی۔۔۔وہ چیخا اورپھرچکرا کر اس طرح گرگیا جیسے کسی نے اسی کی کدال اس کے سرپردے ماری ہو۔
وہ اتنا ہلکا کیوں ہوگیا ہے؟ شاید اس کے جسم سے بہت کچھ نکال کرپھینک دیاگیا ہے۔ وہ اندرسے بالکل خالی ہوچکا ہے۔ اس کی پسلیاں گلنے لگی ہیں۔ ایک ایک کرکے سب گلتی جارہی ہیں، گوشت بھی سڑچکا ہے اورکھال پرزنگ لگ گیا ہے۔ اب وہ بالکل کھوکھلاہوچکا تھا۔
’اے خدا جوباہر ہے وہی اندرہے، اورجو۔۔۔‘
اس نے سوچا اوروہاں سے بھاگنے کے لیے زورلگایا ۔وہ بھاگ تونہ سکا مگرزمین پر لڑھک پڑا اوراتنا تیز لڑھکنے لگا کہ اگررکنا بھی چاہے تونہ رک سکے۔ وہ لڑھکتا رہا۔ چھوٹے بڑے آڑے ترچے راستوں پرلڑھکتا رہا۔
اسے محسوس ہوا کہ وہ زنگ آلود لوہے کا کھوکھلا پہیا ہے اورکوئی شخص اسے مکّا کے ٹھٹھیرے سے مار مارکر تیزی سے لڑھکا رہا ہے۔ وہ لڑھکتا رہا، اس مردے کی مانند جوتابوت میں تھا ہی نہیں۔