خرد کے راستے میں ایک موڑ ایسا بھی آیا تھا

خرد کے راستے میں ایک موڑ ایسا بھی آیا تھا
جہاں ہر آدمی انساں نہ تھا انساں کا سایہ تھا


مصیبت نے ہمیں ایک آئنہ خانہ دکھایا تھا
کہ جس میں مخلصوں کا ایک اک چہرہ پرایا تھا


مٹائی تھی جنہوں نے لعنت دار و رسن پہلے
انہی کو یار لوگوں نے صلیبوں پر چڑھایا تھا


زمانہ کپکپاتا تھا تمہاری سرد مہری سے
دلوں کو تاپنے سورج غموں کی دھوپ لایا تھا


وہ دیوار شکستہ آج تک پھرتی ہے آنکھوں میں
کہ جس کو تھام کر ہم نے بھی اک احساں اٹھایا تھا


کسی نے بھی نہ دیکھا جل رہا تھا آشیاں کس کا
دھواں کچھ اس قدر گلشن کے ایوانوں پہ چھایا تھا


کئی پیاسے تلاش آب میں صحرا میں آئے تھے
وہی منظر دوبارہ ذہن کے خوابوں میں آیا تھا


ازل سے بے صدا تھا بند تھا جو ساز ہستی میں
تمہیں بھی یاد ہوگا ہم نے وہ نغمہ سنایا تھا


غم آخر غم ہے اشرفؔ بے نیام چارہ سازی ہے
تبسم کا بھی لوگوں نے سنا ہے زہر کھایا تھا