خیال و خواب تک تازہ رہیں گے جو بھی ہوگا

خیال و خواب تک تازہ رہیں گے جو بھی ہوگا
جئیں گے اور تری خاطر مریں گے جو بھی ہوگا


تری ناراضگی بھی ختم کرنی ہے ابھی تو
تماشا سادھ کر جوکر بنیں گے جو بھی ہوگا


تمہارے بن گزارا ہے تو مشکل یار پھر بھی
کسی صورت بھی لیکن ہم کریں گے جو بھی ہوگا


تری یادوں کے جلتے دیپ ہیں ان طاقچوں میں
دیوں کو ہر گھڑی روشن رکھیں گے جو بھی ہوگا


محبت کے نہیں یہ عاشقی کے دین پر ہیں
یہ دریا ایسے ہی الٹے بہیں گے جو بھی ہوگا


یہ مرنا مارنا ویسے لگا رہنا ہے ہم میں
وطن پر جان ہم دے کر مریں گے جو بھی ہوگا


سنا ہے کاملؔ آیا ہے ابھی دشت جنوں سے
چلو ہم بھی اسے ملنے چلیں گے جو بھی ہوگا