خراب حال وفا کو رلائے جاتے ہیں
خراب حال وفا کو رلائے جاتے ہیں
نظر چرائے ہوئے مسکرائے جاتے ہیں
وفا شعار سہی غیر مجھ سے کیوں کہیے
یہ روز کس لیے قصے سنائے جاتے ہیں
وفا کی قدر تری انجمن میں کیوں ہوتی
فریب غیر کے نقشے جمائے جاتے ہیں
تم اپنے حسن پہ نازاں ہو اور اہل نظر
دل خراب کی قیمت بڑھائے جاتے ہیں
کسے خبر ہے کہ انجام آرزو کیا ہو
نصیب عشق و وفا آزمائے جاتے ہیں
کبھی تو عشق و ہوس میں بھی چاہیے یہ تمیز
اسی امید پہ صدمے اٹھائے جاتے ہیں
خرام ناز کی حشر آفرینیاں توبہ
قدم قدم پہ قیامت اٹھائے جاتے ہیں
اب ان کی یاد کو کیوں کر بھلائیے دل سے
کہ ریشہ ریشہ میں وہ تو سمائے جاتے ہیں
سنا ہے اب تو ہیں رزمیؔ بھی باریاب جمال
اس انجمن میں ہمیشہ بلائے جاتے ہیں