کروں تجھ سے بے وفائی یہ کبھی روا نہیں تھا
کروں تجھ سے بے وفائی یہ کبھی روا نہیں تھا
اسے بے وفا نہ کہنا کہ وہ بے وفا نہیں تھا
یہ کسی کی سازشیں تھیں یا تھی مرضیٔ زمانہ
مرا تجھ سے دور ہونا مرا فیصلہ نہیں تھا
کہیں دور آ گئی تھی میں حدود زندگی سے
مرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا
مری حالت زبوں سے تھا ہر ایک شخص واقف
میں یہ کیسے مان جاؤں کہ تجھے پتا نہیں تھا
رہی ساتھ زندگی کے میں کچھ ایسے زندگی بھر
کیا فقط ترا خدا تھا کیا مرا خدا نہیں تھا
اسے بھولنے کی خندہؔ کی ہزار بار کوشش
اسے بھولنے کا لیکن مجھے حوصلہ نہیں تھا