غم گساری کا ہے عالم دور تک
غم گساری کا ہے عالم دور تک
گھاس پر پھیلی ہے شبنم دور تک
ایک ہی جیسی فضا ہے چار سو
ایک ہی جیسا ہے موسم دور تک
زخم اپنے دیکھ کر ظاہر ہوا
بانٹتا ہے کوئی مرہم دور تک
چھیڑتی ہے بے خودی کے سلسلے
شب کے سناٹوں میں سرگم دور تک
اپنے مستقبل سے ہوتے با خبر
دیکھ پاتے کاش جو ہم دور تک
ساحل و دریا کو خندہؔ کیا لکھوں
دیکھتی ہوں کوئی سنگم دور تک