آج پھر سے موسم بدلا ہے
آج پھر سے وہ یاد آیا ہے
ان لمحوں کا لمس ہاتھوں میں باقی ہے
خزاں سرد موسم کی ردا اوڑھے
بھٹکنے لگی ہے پھر سے
یاد ہے وہ سب مجھ کو اب بھی
اسی طرح ملتے جلتے موسم میں
سمندر کنارے لہریں جب اچھلتی کودتی
پیروں پہ دم توڑتی تھیں
میرے ذہن کے اک اک گوشے میں
یادیں ابھی بھی رقص کرتی ہیں
بے خودی میں اب بھی مسکراہٹ
ہونٹوں پہ مچلنے لگتی ہے
فلک پر ستاروں کے جھرمٹ میں
دور افق پر چاند جب چمکتا تھا
تب جلتی بجھتی روشنی میں ہم
اک دوسرے کا چہرہ تکتے رہتے تھے
ہوائیں آ کر یوں گدگداتی تھیں
ہنستے ہنستے کئی بار سانسیں
رکنے لگتی تھیں
آج پھر سے اس موسم میں
وہ جھیل سی دو آنکھیں
پھر سے یاد آئی ہیں
جن میں عجب سی اک خاموشی
تیرتی رہتی تھی سنو آ کر بھی
پھر سے زرد پتے شور کرتے ہیں
پھولوں کے بین سنے ہیں میں نے
کہتے ہیں سب مجھ سے
بد گمانی ہو جس دل میں
محبت ہو ہی نہیں سکتی
میں کھڑی ہوں جہاں
وہاں خاموشیاں آج بھی باتیں کرتی ہیں
آج پھر سے موسم بدلا ہے
آج پھر سے وہ یاد آیا ہے