زہراب رگ جاں میں اتارا ہی بہت تھا
زہراب رگ جاں میں اتارا ہی بہت تھا
بستی نے تری مجھ کو رلایا ہی بہت تھا
ویران ہوئے آہ کے اثرات سے مسکن
لوگوں نے مجھے مل کے ستایا ہی بہت تھا
ہونا تھا کسی روز ہمیں یوں بھی تو پسپا
پلکوں پہ تجھے ہم نے بٹھایا ہی بہت تھا
اک روز تو ملنا تھا جفا کش کو صلہ بھی
پیغام وفا ہم نے سنایا ہی بہت تھا
گرنا تھا کسی روز بلندی سے ہمیں بھی
خوابوں کا نشہ آنکھ پہ چھایا ہی بہت تھا
خندہؔ یہ جو میں دیتی بھی تو قرض کہاں تھا
پہلے سے عزیزوں پہ بقایا ہی بہت تھا