کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا

کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا
ہماری آرزو کیا مدعا کیا


سمجھ کا پھیر ہے اچھا برا سب
جو سچ پوچھو تو اچھا کیا برا کیا


کریں سجدہ فقط ہم بہر سجدہ
نہیں منظور بندہ کیا خدا کیا


جسے مل جائے تیرے غم کی دولت
غم دنیا سے اس کو واسطہ کیا


اعزہ کیوں سر بالیں ہیں خاموش
مریض غم ابھی سے سو گیا کیا


مرے جاتے ہیں ہم خوف فنا سے
نہ ہو مرنا تو جینے میں برا کیا


نہ جانے آج کیوں بگڑے ہوئے ہو
کسی نے کان میں کچھ کہہ دیا کیا


نہ جینا ہاتھ میں اپنے نہ مرنا
بشر کی ابتدا کیا انتہا کیا


ستم دیکھو مجھی سے پوچھتے ہیں
نصیب دشمناں کچھ ہو گیا کیا


ہمارا کام ہے گھٹ گھٹ کے مرنا
وہی جانے جفا کیا ہے وفا کیا


سر منبر کوئی جا کر تو دیکھے
ابھی تک ہے در مے خانہ وا کیا


وہ وقت صبح رخصت ہو رہے ہیں
یہی ہے شام غم کی ابتدا کیا


بت کافر سے الفت ہے سحرؔ کو
وہی جانے کہ بت کیا ہے خدا کیا