کم ہی ہوتے ہیں مقدر کے سکندر چہرے
کم ہی ہوتے ہیں مقدر کے سکندر چہرے
کتنے مرجھائے ہیں ان چہروں کے اندر چہرے
اہل کشتی کو تو ساحل کے ہی خواب آتے ہیں
تکتا رہتا ہے سفینوں کے سمندر چہرے
قہر کیا ٹوٹ پڑا رات کو اس بستی پر
جلے جھلسے جو نظر آتے ہیں گھر گھر چہرے
دل میں اک جلتا ہوا تیر اتر جاتا ہے
جب گھڑی بھر میں بدل جاتے ہیں تیور چہرے
یہ نہیں سوچتے قاتل بھی تو ہو سکتے ہیں
چاند کے بھیس میں تاریک سے بد تر چہرے
آسمان اور زمیں پر تو نہیں ہیں خندہؔ
تیری تصویر کے چہرے کے برابر چہرے