کل اور آج

وقت تھا جب کوئی بھی بستا نہ تھا
لکھنا پڑھنا تب بھی کچھ سستا نہ تھا
ایک تختی تھی قلم تھا اور دوات
اس سے زیادہ تھی کہاں کوئی بھی بات
قاعدہ ہم کو ملا پڑھنے کو تب
دیکھتے پڑھتے تھے رٹتے اس کو سب
مل کے سب گنتی پہاڑے بولتے
بات کرنے سے ہی پہلے تولتے
تب کہاں گنتی کا ہم کو گیان تھا
پڑھنا لکھنا کس قدر آسان تھا
پانچویں تک چند کتابیں تھیں حضور
ہم چلے جاتے اٹھا کر دور دور
آج پہلی دوسری ہو نرسری
یہ کتابیں ہم پہ کرتیں گھڑ چڑھی
بوجھ سے دبتے چلے جاتے ہیں ہم
ہے یہ ممکن ان سے نکلے اپنا دم
کوئی بتلائے کہ شکشا ہے کہیں
سچ تو یہ ہے کہ بتا سکتے نہیں
گھر پہ یہ ماں باپ پر اک قرض ہے
بچے گھر سے پڑھ کے جائیں فرض ہے
کاش کوئی اس طرف بھی دیکھ لے
تب کہیں شکشا نئی ہم کو بھی دے