کیسی وارفتگی سے دیکھے ہے
کیسی وارفتگی سے دیکھے ہے
آدمی آدمی کو دیکھے ہے
جاگ جائے ہے حسرت دیدار
جب بھی کوئی کسی کو دیکھے ہے
اتنا سادہ تو وہ نہیں لگتا
جس قدر سادگی سے دیکھے ہے
اس کو فرصت سے دیکھتی ہوں میں
وہ جو کم فرصتی سے دیکھے ہے
تیرے چہرے پہ کیا نظر جائے
دل تری کج روی کو دیکھے ہے
کیوں نہ جلووں کی دل پہ بارش ہو
تجھ سے بڑھ کر تجھی کو دیکھے ہے
دیکھ کر اس کو دیکھنا ہے یہی
کوئی کب تک کسی کو دیکھے ہے
میں محبت سے اس کو تکتی ہوں
اور وہ دشمنی سے دیکھے ہے
کیوں نہ آنکھیں پھر اس کی دریا ہوں
جو مسلسل نمی کو دیکھے ہے
چاند کی اپنی روشنی ہے سحرؔ
چاند کب چاندنی کو دیکھے ہے