پہلے تو مجھ میں حشر بپا کر دیا گیا

پہلے تو مجھ میں حشر بپا کر دیا گیا
اور پھر بدن کو نذر صبا کر دیا گیا


کانٹوں کی باڑ پر تھا گلابوں کا پیراہن
پھولوں کو خار و خس کی قبا کر دیا گیا


مانگی جو میں نے وصل کی لذت تو یہ کہا
کہ تجھ کو درد ہجر عطا کر دیا گیا


جب جب اسے پکارا کڑی دھوپ میں لگا
سایہ سا جیسے مجھ پہ گھنا کر دیا گیا


اک بار ہی تو چمکا تھا مجھ میں ترا وجود
پھر عکس تیرا مجھ سے جدا کر دیا گیا


کیا پھر ہوائے مرگ چلی ہے دیار میں
کیا شہر آرزو کو فنا کر دیا گیا


جانا تھا لا مکاں کی مجھے سیر کو سحرؔ
اچھا ہوا بدن سے رہا کر دیا گیا