پانچواں موسم

کہنے کو تو چار ہیں موسم
پانچواں موسم
بنجر پن کا جس میں
فکر کے سارے طائر
حرف کی شاخ سے
اڑ جاتے ہیں
جس میں لفظ کی خوشبو
سرسر لے جاتی ہے
بے رنگی اور بے کیفی کے
ان بانجھ پلوں میں
خالی پن میں
صبح سے لے کر شام تلک
یاس کی تان پہ
ناچ ناچ کے
جسم کو بوجھل
کر دیتے ہیں
فکر و خیال کے
سارے پیکر
نیلاہٹ کے
گہرے غار میں
گر جاتے ہیں
دھیرے دھیرے
سارے سبز گلابی موسم
کالی رات میں ڈھل
جاتے ہیں
آنکھیں بھی تو اک موسم ہیں


میری آنکھیں
پانچواں موسم
جن میں کوئی خواب
نہیں ہے
لب یاقوتی
لیکن ان پر
تیری یاد کی
باس
نہیں ہے
جسم ہے بوجھل
روح پریشاں
فکر اکیلی
اور اس دل میں
ایک ہی دھڑکا
اب کچھ ہوگا
کب کچھ ہوگا