پچھتاوا

یہ کس دیار میں لے آئی زندگی مجھ کو
جہاں پہ پھول سے چہرے ببول لگتے ہیں
جہاں پہ سایہ بھی لگتا ہے دھوپ کی مانند
نسیم چلتی ہے رک رک کے ایسے سینے میں
کہ جیسے پھانس کسی یاد کی اٹکتی ہو
جہاں پہ ابر بھی سورج مثال لگتا ہے
جہاں کرن کی ضرب زخم دل کھرچتی ہے
کھلے جو پھول تو پتی سے چوٹ لگتی ہے
یہ دہر وہ ہے جدھر باد خوش گوار سحر
دریچے کھول کے یادوں کے آہ بھرتی ہے
ہر ایک چہرے پہ آویزاں آنکھ ہے لیکن
کسی نظر میں کوئی رنگ آشنائی نہیں
کسی کا لمس بھی پوروں کے راستے دل میں
دئے جلاتا نہیں اس قدر اندھیرا ہے