خود فریبی

شب ایک ساتھ گزارنے والے
دن اکٹھے نہیں گزار سکتے
کہ اندھیرا تنہائی کی آنکھ پر
انگلی رکھ دیتا ہے
اور وصلتی ہجر کا سارا دکھ پی جاتا ہے
سویرا بہت بولتا ہے
سارے راز کھولتا ہے
رات کاٹنا مشکل
دن اس سے سوا مشکل
روشنی آپ کو ایک ساتھ دکھانے کا
فریب دیتی ہے
اور شاید کامیاب ہو جاتی ہے
میں نے خود کو
تمام عمر دھوکے کی سان پر رکھا
زندگی ایک تنی ہوئی رسی ہے
جس پر چلتے ہوئے ہر شے
کھائی معلوم ہوتی
یہاں تک کہ نیلا آسمان بھی
اور آنسو جیسے زمیں پر بکھرے ستارے
نشیب سے فراز تک کا سفر
قدموں سے نہیں جذبوں سے
طے ہوتا ہے
لیکن ایک معذور شخص کیا
جانے
کہ رنگ سے خوشبو کا
ہاتھ چھوٹ جائے تو
سفر طویل ہو جاتا ہے
پھر نہ جذبے کام آتے ہیں
نہ ہی قدم