کیسے کہوں کہ آخری اپنی اڑان ہے

کیسے کہوں کہ آخری اپنی اڑان ہے
اس آسماں کے بعد بھی اک آسمان ہے


زخموں سے چور چور بدن لب پہ جان ہے
ایسے میں حوصلوں کا مرے امتحان ہے


اللہ رے یہ شہر نگاراں یہ میرا دل
کچا گھڑا ہے اور ندی میں اپھان ہے


محلوں میں ہو اداس تو آ جاؤ لوٹ کر
میرا وہیں پہ آج بھی کچا مکان ہے


تو نے دیا جو زخم وہ بھر تو گیا مگر
دل پر ہمارے آج بھی اس کا نشان ہے


پرچم ہمارے عزم کا اب بھی بلند ہے
اللہ کا ہے شکر وہی آن بان ہے


تشنہؔ تو مشکلات سے ہمت نہ ہارنا
بے شک خدائے پاک بڑا مہربان ہے