کہیں دن ڈھلا کہیں شب ہوئی کہیں شام آئی سحر گئی

کہیں دن ڈھلا کہیں شب ہوئی کہیں شام آئی سحر گئی
کسی بے وفا کی تلاش میں مری عمر یوں ہی گزر گئی


تیرے حسن عشق نواز نے مجھے خوش نصیب بنا دیا
مرے رنج و غم کو مٹا دیا مری خستہ حالی سنور گئی


میں کسے سناؤں یہ داستاں میں کسے بتاؤں یہ ماجرا
کسی نازنیں کی ہر اک ادا مرے دل جگر میں اتر گئی


ترے جلوے زینت گلستاں تو ہی مہر و ماہ میں ضو فشاں
ترے حسن سے ہوئی آشنا جہاں تک ہماری نظر گئی


تمہیں یاد میں نہ کروں کبھی تمہیں اپنے دل سے نکال دوں
یہی کام مجھ سے نہ ہو سکا مری زندگانی گزر گئی