کہاں میں جاؤں غم عشق رائیگاں لے کر

کہاں میں جاؤں غم عشق رائیگاں لے کر
یہ اپنے رنج یہ اپنی اداسیاں لے کر


جلا ہے دل یا کوئی گھر یہ دیکھنا لوگو
ہوائیں پھرتی ہیں چاروں طرف دھواں لے کر


بس اک ہمارا لہو صرف قتل گاہ ہوا
کھڑے ہوئے تھے بہت اپنے جسم و جاں لے کر


نئے گھروں میں نہ روزن تھے اور نہ محرابیں
پرندے لوٹ گئے اپنے آشیاں لے کر


سمندروں کے سفر جن کے نام لکھے تھے
اتر گئے وہ کناروں پہ کشتیاں لے کر


تلاش کرتے ہیں نو ساختہ مکانوں میں
ہم اپنے گھر کو پرانی نشانیاں لے کر


انہیں بھی سہنے پڑے تھے عذاب موسم کے
چلے تھے اپنے سروں پر جو سائباں لے کر


ہوا میں ہلتے ہوئے ہاتھ پوچھتے ہیں زبیرؔ
تم اب گئے تو کب آؤ گے چھٹیاں لے کر