کبھی ڈھلتے ہوئے سورج کا منظر ہی نہیں دیکھا

کبھی ڈھلتے ہوئے سورج کا منظر ہی نہیں دیکھا
ترے دل سے پرے میں نے گزر کر ہی نہیں دیکھا


بتاؤں کیا گزرتی ہے مرے بچوں کے ذہنوں پر
ہوئی مدت تلاش رزق میں گھر ہی نہیں دیکھا


میں آئینہ سدا رکھتا ہوں مستقبل کے منظر کا
کبھی ماضی کی جانب میں نے مڑ کر ہی نہیں دیکھا


نہ ساحل پر نہ کشتی پر کوئی تہمت رکھی میں نے
تھا ڈر دل میں تلاطم کا سمندر ہی نہیں دیکھا


کمی شاید ہے قسمت کی کہ آنکھوں نے مری اب تک
جسے الماس کہتے ہیں وہ پتھر ہی نہیں دیکھا