کبھی عروج کبھی وہ زوال دیتا ہے

کبھی عروج کبھی وہ زوال دیتا ہے
کوئی تو ہے جو فلک پر اچھال دیتا ہے


وہی تو سنگ تراشوں کا دست پنہاں ہے
وہی تو سیپ سے موتی نکال دیتا ہے


عذاب لگنے لگے جب حیات تب بھی وہی
فشار زیست سے آ کر نکال دیتا ہے


اسی پہ مجھ کو بھروسہ ہے دیکھیے کیا ہو
جو روز اک نیا فتنہ اچھال دیتا ہے


نفس نفس پہ مرے اختیار ہے جس کا
وہ مجھ کو ہجر بھی مثل وصال دیتا ہے


تم اس کا دائرۂ اختیار کیا جانو
وہ پتھروں سے بھی آنسو نکال دیتا ہے