گھر کے فرد اپنے گھر کو بھول گئے

گھر کے فرد اپنے گھر کو بھول گئے
ہم سفر ہم سفر کو بھول گئے


تھی نہ پہچان کچھ بھی جن کے بغیر
لوگ انہیں بام و در کو بھول گئے


بارہا عشق میں فریب ملا
بارہا درد سر کو بھول گئے


ترشیوں کو لگا کے منہ ہم لوگ
لطف شیر و شکر کو بھول گئے


غیر پر منحصر ہوئے جب ہم
اپنے دست ہنر کو بھول گئے


پھیر میں جب سے پتھروں کے پڑے
شیشہ گر شیشہ گر کو بھول گئے


نظروں والے بھی ہو گئے روپوش
ہم بھی اہل نظر کو بھول گئے


ہم سے قربت بڑھا کے طائر بھی
مصرف بال و پر کو بھول گئے


اس قدر پیچ و خم ملے کے نہالؔ
ہم رہ معتبر کو بھول گئے