گھیر کر جرأت انکار تلک لے آئے

گھیر کر جرأت انکار تلک لے آئے
لوگ ہم کو رسن و دار تلک لے آئے


ہم کو ان پر ہی بھروسہ تھا جو اکثر ہم کو
دے کے پھولوں کی قسم خار تلک لے آئے


دل کے امراض یہ دیکھا ہے کہ درماں کے لئے
ایک بیمار کو بیمار تلک لے آئے


روک پائی نہ زباں بھی مری الفاظ مرے
ولولے قوت اظہار تلک لے آئے


آسماں ہم نے بنائے تھے جو اپنی خاطر
ہم جہاں کو اسی معیار تلک لے آئے


رہ گیا مل کے سمندر کف افسوس اور ہم
ناؤ اس پار سے اس پار تلک لے آئے


تھا ہمیں شوق اسیری نہ سمجھنا یہ نہالؔ
لو کے جھونکے در و دیوار تلک لے آئے