مجھ کو شاہی نہیں توفیق فقیرانہ دے
مجھ کو شاہی نہیں توفیق فقیرانہ دے
رکھ مجھے بزم میں چاہے مجھے ویرانہ دے
بھر دے بھرنا ہے اگر عشق کا سودا سر میں
مجھ کو دینا ہے اگر جرأت رندانہ دے
آخرش حد بھی ہے ایثار کی کوئی کہ نہیں
شمع پر جان کہاں تک کوئی پروانہ دے
میں حقیقت کی تہیں کھول کے رکھ سکتا ہوں
مجھ کو ترتیب تو دینے کوئی افسانہ دے
یہ نہ اٹھیں گے کبھی سطح سے اپنی اوپر
ان خرد والوں کو شہہ کتنی بھی دیوانہ دے
عدل و انصاف روا تاکہ دوبارہ ہو جائیں
فیصلہ کرنے نہ منصف کو بھی من مانا دے
تو جو چاہے تو بدل جائے جہاں کی تصویر
انہیں شاہوں کو جو احساس فقیہانہ دے
کس کو اپنا کہیں اور غیر کہیں کس کو نہالؔ
دے نہ اپنا کوئی کچھ اور نہ بیگانہ دے