جو اب جواں ہے وہ عزم جواں رہے نہ رہے

جو اب جواں ہے وہ عزم جواں رہے نہ رہے
بہار آئے نہ آئے خزاں رہے نہ رہے


پتہ نہیں کہ سمندر میں بعد طوفاں بھی
سفینہ ہو کے نہ ہو بادباں رہے نہ رہے


قدم قدم پہ اگی رنجشوں کے عالم میں
جوار یار در دوستاں رہے نہ رہے


گھر اپنا بھر لو ابھی خیر ہے اجالوں سے
جب آندھیاں ہوں دیا ضو فشاں رہے نہ رہے


ہم انقلاب کا باعث جسے سمجھتے ہیں
وہ گرم خون رگوں میں رواں رہے نہ رہے


نفس نفس ہے شرابور جس کی نکہت سے
وہ گل کھلیں نہ کھلیں گلستاں رہے نہ رہے


بھٹک رہے ہیں نشانوں سے تیر اب اس کے
کڑی ابھی بھی وہ دیکھو کماں رہے نہ رہے


ابھی ابھار لو الفاظ جو دبے ہوں نہالؔ
دہن کے ساتھ ہمیشہ زباں رہے نہ رہے