کبھی دھیرے کبھی عجلت سے کیا جاتا ہے
کبھی دھیرے کبھی عجلت سے کیا جاتا ہے
کام ہجرت کا سہولت سے کیا جاتا ہے
یہ ودیعت ہوا جذبہ ہے عطا ہے رب کی
عشق بھی کوئی ضرورت سے کیا جاتا ہے
اتنا خود سر نہ ہوا کر مرے مرجان صفت
کچھ کنارا بھی عداوت سے کیا جاتا ہے
یہی دنیا کا چلن جان کر اے جان غزل
رنگ خود پر بھی ضرورت سے کیا جاتا ہے
آخر شب کی خموشی سے یہی مجھ پہ کھلا
ہجر میں سامنا وحشت سے کیا جاتا ہے
مرحلہ وار محبت کا سفر ہو عادلؔ
طے یہ رستہ کہ ریاضت سے کیا جاتا ہے