کالی ہوا چلی گئی رنگ زیاں اچھال کے

کالی ہوا چلی گئی رنگ زیاں اچھال کے
میرے دیار میں گلو رکھنا قدم سنبھال کے


باد سحر خموش تھی جاگتی تھیں سماعتیں
میرے لبوں پہ رقص میں حرف تھے عرض حال کے


چشم دریچے شوق کے بند کیے گئے سبھی
اور ہٹا دیے گئے پردے در خیال کے


موج شمیم اس لیے چوم رہی ہے گرد راہ
وہ بھی مسافروں میں ہے قافلۂ جمال کے


آخری حد نہیں ہے دور اب نہ بہت کرے غرور
ظلم کو دے دو یہ خبر آ گئے دن زوال کے


کوئی زمیں ہو کوئی بحر جیسے نکالتا ہوں میں
کوئی دکھائے تو مجھے شعر نئے نکال کے


جانا جو چاہتا ہے تو کوئے یقین کی طرف
راستے پہلے بند کر کوچۂ احتمال کے


ایک سوال سے مرے ہو گئے لا جواب سب
کوئی جواب دیتا کیا رخ تھے کئی سوال کے


کوئی بھی نقش زندگی مجھ سے نہاں نہ رہ سکا
میری نظر میں ہیں مجیبؔ آئنے ماہ و سال کے