جوں ہی تیور ہوا کے بیٹھ گئے

جوں ہی تیور ہوا کے بیٹھ گئے
ہم دیوں کو بجھا کے بیٹھ گئے


اس نے رسماً کہا ٹھہر جاؤ
اور ہم مسکرا کے بیٹھ گئے


باغ میں منتظر تھے ہم اس کے
کچھ پرندے بھی آ کے بیٹھ گئے


شعر پڑھنے شکیب و ثروت کے
ہم بھی پٹری پہ جا کے بیٹھ گئے


منتظر تھے نگار خانے کے
آئنوں کو سجا کے بیٹھ گئے


تیرا وعدہ تھا لوٹ آنے کا
اور تم ہو کہ جا کے بیٹھ گئے