جستجو ان کی در غیر پہ لے آئی ہے

جستجو ان کی در غیر پہ لے آئی ہے
اب خدا جانے کہاں تک مری رسوائی ہے


دل ابھی مائل صد بادیہ پیمائی ہے
کیوں عبث اہل چمن انجمن آرائی ہے


ہم قفس والوں کو اتنا تو بتا دے کوئی
کیا یہ سچ ہے کہ گلستاں میں بہار آئی ہے


تیرے غم سے مجھے امداد ملی ہے اکثر
جب طبیعت غم ایام سے گھبرائی ہے


خندۂ گل بھی وہی گریۂ شبنم بھی وہی
ہم تو سمجھے تھے نئے ڈھب سے بہار آئی ہے


اس میں تسکین کا پہلو نہ کہیں مخفی ہو
اب طبیعت نئے انداز سے گھبرائی ہے


کیا ستم ہے کہ تری عیش بھری دنیا میں
تیرا دیوانہ اسیر غم تنہائی ہے


یہ بھی سچ ہے کہ تمنا ہی ہے باعث غم کا
یہ بھی تسلیم کہ ہر شخص تمنائی ہے


مست و دیوانہ و مجذوب پہ ہنسنے والو
تم تماشا جسے سمجھے ہو تماشائی ہے


ایک دنیا ہے کہ ہنگامہ ہی ہنگامہ ہے
اور اک میں ہوں کہ تنہائی ہی تنہائی ہے


عین ممکن ہے کہ مجھ ہی میں کمی ہو لیکن
سامنے آئے محبت جسے راس آئی ہے


ان سے ملتے ہی مرے دل نے کیا یہ محسوس
جیسے صدیوں سے مری ان کی شناسائی ہے