جرم ایسا بھی مری جاں مجھ سے کیا ہونے لگا
جرم ایسا بھی مری جاں مجھ سے کیا ہونے لگا
تیرے میرے درمیاں جو فاصلہ ہونے لگا
سادہ دل کو لوٹتا ہے یہ زمانہ کس طرح
دھیرے دھیرے اب مجھے بھی تجربہ ہونے لگا
آب زمزم اور گنگا جل کو پی کر بولئے
کیا وہ غنڈہ اور موالی پارسا ہونے لگا
اب اٹھا کر پھینک دیجے ملک کے دستور کو
حکمراں کے حکم پر جب فیصلہ ہونے لگا
آپ کی آنکھوں نے جانے میرے دل سے کیا کہا
بعد جس کے سارا منظر خوش نما ہونے لگا