جنوں کے عہد میں آوارہ کو بہ کو ہونا
جنوں کے عہد میں آوارہ کو بہ کو ہونا
بغیر مشک کے سانسوں کا مشک بو ہونا
اسی نے چاہا نگاہوں کے روبرو ہونا
وگرنہ سہل نہ تھا اس سے گفتگو ہونا
عبا قبا کے لیے تو یہ بات ممکن ہے
جگر کے چاک کا ممکن نہیں رفو ہونا
نہ جانے کب سے ہے حیرت زدہ بنائے ہوئے
اس ایک سو کا نگاہوں میں چار سو ہونا
طلوع ہونا افق پر مہ وصال سا کچھ
ترے بدن کا سر شام رنگ و بو ہونا
جہاں جہاں سے نکل کر یہ برق گرتی ہے
وہاں وہاں ہے یہ چاک فلک رفو ہونا
تھکن ملال اداسی سفر کی ناکامی
یہ ہو قبول تو سرگرم جستجو ہونا
میں اپنا خون دئے جا رہا ہوں دنیا کو
اب اس کے بعد شفق کو ہے سرخ رو ہونا
شب فراق نے آسان کر دیا اقبالؔ
ہمارے اشک کا جگنو کے رو بہ رو ہونا